Majrooh Sultanpuri
مشہور شاعر اور فلمی نغمہ نگار مجروح سلطانپوری کے والد نے ان کا داخلہ لکھنو کے یونانی کالج میں کرایا تھا تاکہ وہ حکیم بن جائیں۔ وہاں تو ان کا جی نہیں لگتا تھا، انھوں نے وہیں میوزک کالج میں بھی داخلہ لے لیا۔ والد کو پتہ چلا تو فوراؑ نام کٹوانے کا حکم دیا اور مجروح کو میوزک کالج چھوڑنا پڑا۔ حکمت کی تعلیم بھی بادلِ نا خواستہ مکمل کر لی اور 1940 میں اپنے وطن سلطانپور کے محلہ پلٹن بازار میں مطب بھی کھول لیا۔ لیکن وہاں بس نام کےلئے بیٹھتے تھے۔ شام ہوتے ہی اپنے چند دوستوں کے ساتھ گومتی ندی کے کنارے پہنچ جاتے اور اپنی سریلی پاٹ دار آواز میں اپنے گیت گاتے۔ اس زمانے کے لکھے ان کے دو گیت بہت پسند کئے جاتے تھے اور جب وہ مشاعروں میں اپنی غزلیں سنا لیتے تب لوگ ان گیتوں کو فرمائش کر کے سنتے تھے۔ ایک گیت کے بول کچھ یوں تھے ۔
ٹیلے کی طرف چرواہے کی بنسی کی صدا ہلکی ہلکی
ہے شام کی دیوی کی چنری شانوں سے پرےڈھلکی ڈھلکی
کچھ تعجب نہیں کہ 1965 میں بنی فلم ' تین دیویاں' میں جب مجروح اس فلم کا یہ گیت لکھ رہے ہوں، جس میں کچھ اسطرح کے بول ہیں :
'جب میری چنریا ململ کی پھر کیوں نہ پھروں جھلکی جھلکی'
تب ان کے ذہن میں اپنا پرانا گیت لہریں لے رہا ہو
Comments
Post a Comment